ڈیلی کرپشن رپورٹ برائے 8جون 2010

Share   ادھار کی دانشوری

جناب مدیر میں آپ کے موقّر روزنامے میں شائع ہونے والے بعض کالم نگاروں کی کچھ تحریروں پر ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے بات کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ جنگ جیسے اخبار میں چھپنے والے کسی بھی شخص کوسب سے پہلے تو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ایک ذمہ دار سنجیدہ اور انصاف پسند انسان کی طرح سوچنے کی عادت ڈالے۔ دوسروں کی بنائی ہوئی باتوں اور چلائے ہوئے مفروضوں پر اپنے خیالات کا ملمع چڑھانے سے نہ آدمی دانش کی کسی کمترین منزل تک پہنچ سکتا ہے نہ اس کی باتوں سے ملک و قوم کا کوئی بھلاہو سکتا ہے۔سب جھوٹ اور جھوٹی باتیں ۔ یہ دیکھ کر امریکہ نے ( اپنے مفاد اور منصوبے کے تحت) شور مچایا عراق میں دنیا کو تباہ کر دینے والے ہلاکت خیز ہتھیار ہیں لہٰذا اس پر حملہ کرنا ہو گا ۔ بہت سے دوسروں کی طرح ہمارے بے شمار ”دانشوروں“ نے بھی یہی راگ الاپنا شروع کر دیا۔ حملہ ہو گیا ۔ عراق کو کئی سال کی بمباریوں سے تباہ و برباد کر دیا گیا ۔ مسلمانوں کی انمول تہذیبی میراث مٹا دی گئی۔ لاکھوں عراقی مسلمان مرد عورتیں اور بچے جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیئے گئے۔ صدام حسین اور اس کے ساتھیوں کو سولیوں پر چڑھا دیا گیا ۔ لیکن اتنا ظلم و ستم ڈھانے اور ایک پورے ملک کو برباد کر دینے کے بعد بے شرمی سے اعلان کر دیا کہ ہتھیاروں وغیرہ کے بارے میں سی آئی اے کی رپورٹ درست نہیں تھی۔مطلب ۔حملہ غلط تھا۔ قتل کے بعد جفا سے توبہ۔ لیکن عراق تو تباہ ہو گیا۔ لاکھوں عراقی مسلمان مار دیئے ۔اسلام دشمنی اس درجے کی اور مسلمانوں سے تعصب اس انتہا کا کہ قرآن کریم پر گولیاں برسا کر اپنی نفرت کا اظہار کیا گیا۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کیلئے پیغام۔ اپنی دفاعی تیاریاں بھی ہماری بتائی ہوئی حد کے اندر اور بس۔ اس سے زیادہ کیا تو عراق اور صدام کا حشر دیکھ لو۔ اسرائیل کیلئے مذاق میں بھی کوئی لفظ منہ سے نکالا تو برباد کر کے رکھ دیں گے۔ 9-11ٹوئن ٹاورز پر حملہ مسلمانوں نے القاعدہ نے کیا۔ بس ہم نے کہہ دیا آپ اسے اسی طرح مانیں۔ پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے کیا ہو رہا ہے۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل کے ایجنٹ کھل کر کام کررہے ہیں، بلیک واٹر بدنام ہوگئی۔ نام تبدیل کر دیا۔زی انٹرنیشنل یا جو بھی۔ایک ایک وقت میں سینکڑوں ویزے جاری کرو ورنہ قرضہ نہیں ملے گا۔ انہیں پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے پر روکنا نہیں، کوئی وردی کوئی علامتی نشان نہیں۔ سول کپڑوں میں اب یہ کہیں خود یا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جو بھی کریں ۔ ذمہ دار کوئی نہ کوئی پاکستانی ۔ کوئی نہ کوئی اسلامی تنظیم ۔ لیکن ہمارے نام نہاد دانشور؟ کوئی سوچتا نہیں۔ کوئی غور نہیں کرتا۔ بس امریکہ نے کہہ دیا، پاکستانی گروپ ذمہ دارہیں تو مانو کہ ہیں ۔ نت نئے نام۔طالبان، افغانستان کے طالبان، پھر پاکستانی طالبان ، اب پنجاب کو مزہ چکھاناہے تو پنجابی طالبان۔ ایک تماشا طرفہ تماشا ! ہماری قوم کو، پاکستان کے عوام کو ہو شیار رہنا ہو گا۔ ادھار لی ہوئی دانش بگھارنے والے تو شاید کہیں بھاگ بھی جائیں گے۔ ہم عام پاکستانی کہاں جائیں گے۔ اسلئے آنکھیں کھول کر رکھو اور جاگتے رہو۔

( محمد اظہاررانا ۔جمشید روڈ۔کراچی)

Share   جیکب آباد : یو این ایف پی کے تحت سرکاری اسپتالوں میں مراکز کا قیام

جیکب آباد (نامہ نگار) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی (یو این ایف پی) کی طرف سے زچہ و بچہ کی بہتر صحت کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر سید آصف علی شاہ، ای ڈی او ہیلتھ دیدار جمالی اور کمیونٹی موبیلائزر عبدالقادر نے بتایا کہ زچہ و بچہ کی بہتر صحت کے لئے اقوام متحدہ کی طرف سے جیکب آباد کے سرکاری اسپتالوں میں 7 مراکز قائم کئے گئے ہیں جو 24 گھنٹے حاملہ خواتین کے علاج کے علاوہ ڈلیوری اور آپریشن کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین مریضوں کو مفت دوائیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

Share   گھریلو تشدد سے متاثرہ خواتین کیلئے تمام اضلاع میں پناہ گاہوں کی تعمیر کا آغاز

کراچی (اسٹاف رپورٹر) صوبائی وزیر برائے ترقی نسواں توقیرفاطمہ بھٹو نے کہا ہے کہ دور جدید میں وہی ممالک ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں جنہوں نے خواتین کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ بات انہوں نے خواتین کے مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے خواتین کی اہمیت کومحسوس کرتے ہوئے خواتین کے بینک، پولیس تھانہ کا قیام، محکمہ ترقی نسواں کا تصوراورملازمتوں میں خواتین کے کوٹے کو شامل کیا۔ انہوں نے کہا بے زمین خواتین کسانوں میں سرکاری زمین کی مفت تقسیم، بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام اور سرکاری ملازمتوں میں خواتین کو ان کا جائز حق دلانا موجودہ جمہور ی حکومت کے اہم اقدامات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت سندھ نے جیلوں میں قیدخواتین کو مفت قانونی مشاورت 115 غریب اور نادار خواتین اور25 قیدی بچوں کے جرمانے اور زرضمانت اور56 غیرملکی خواتین کو بچوں کے ساتھ اپے وطن واپسی کے سفری اخراجات کی مد میں کل 9.060 ملین روپے آئی جی جیل خانہ جات کے توسط سے جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر اسلم زاہد کی نگرانی میں کام کرنے والی کمیٹی کو ادا کیے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ خواتین کو بعض معاملات میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کی شکایات کے بروقت ازالے کے لیے حکومت سندھ نے ایک کروڑ روپے کی لاگت سے کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور شہید بے نظیرآبادمیں عورتوں کے شکایتی مراکزقائم کیے ہیں اس کے علاوہ گھریلوتشددکاشکارخواتین کے لیے صوبے کے تمام اضلاع میں پناہ گاہیں تعمیرکی جا رہی ہیں جہاں خواتین کو بلاامتیاز رنگ ونسل ومذہب تحفظ فراہم کیاجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان پناہ گاہوں میں خواتین کوتحفظ کے ساتھ ساتھ تعلیم وتربیت بھی دی جائے گی تاکہ ان کی دوبارہ آبادکاری میں مدد مل سکے اور یہ خواتین معاشرے میں دوبارہ باعزت مقام حاصل کر سکیں۔

Share   قرطبہ سے واٹر لو تک … (1)….آفتابیاں…آفتاب اقبال

ہم پورا ہفتہ یورپ کے دو ممالک سپین اور بلجیئم کو خواب رونق بخشنے کے بعد گزشتہ روز وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ اس خوشگوار سفر کا مقصد پاکستان سے متعلق یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کی کوریج اور یہاں کی تاریخ، سیاست، معیشت اور میڈیا بارے جانکاری کا حصول تھا۔ اس حوالے سے ہم اپنے کالموں کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ جیو پر 26 جون سے شروع ہونے والے ٹی وی شو میں بیشمار معاملات زیر بحث لائیں گے خصوصاً قرطبہ کی کسمپرسی اور واٹر لو کی واردات جس سے مسلمانوں نے بالعموم اور پاکستانیوں نے بالخصوص کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وقت اور جگہ کی قلت چونکہ ہمیشہ آڑے آتی ہے، اس لئے مختصر ہی ممکن ہے۔

سپین کی ٹرین!

سپین روانگی سے چار روز قبل یار لوگوں نے جو موسمیاتی مخبریاں فراہم کر رکھی تھیں ان کے مطابق وہاں اچھا خاصا ٹھنڈ پروگرام جاری تھا چنانچہ ہمارے لشکر میں شامل اکثر احباب نے اپنے آپ کو گرم کپڑوں سے لیس کر رکھا تھا مگر اتفاق سے جب ہم نے سر زمین اندلس پر قدم رنجہ فرمایا اس وقت موسمی حالات پلٹا کھا چکے تھے۔ گزشتہ تین روز کی موسلا دھار بارش بالکل ختم اور اب ”موسلا دھار حبس“ شروع ہو چکی تھی۔ ایک تو موسمیاتی مخبری اور اس پر مستزاد معتبر اور معزز نظر آنے کی خواہش۔ ہمارے گروپ کے تقریباً نوے فیصد شرکاء نیکٹائیوں اور سوٹوں میں ملبوس تھے۔

میڈرڈ سپین کا دارالحکومت ہے جہاں سے ایک برق رفتار ٹرین ہم سب کو لے کر قرطبہ روانہ ہوئی۔ آپ اگر بذریعہ کار یہ سفر کرنا چاہیں تو تقریباً ساڑھے چار گھنٹے درکار ہوتے ہیں مگر ٹرین نے یہ کام فقط پونے دو گھنٹے میں کر ڈالا۔ میڈرڈ ایک خوبصورت شہر ہے اور یہاں سڑکوں، چوراہوں اور گلیوں میں انتہائی دلکش مجسموں اور یادگاروں نے ہسپانوی قوم کی زبردست تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوا رکھا تھا مگر جس مقام نے ہمیں حیران کر کے رکھ دیا وہ میڈرڈ ریلوے سٹیشن کا اندرونی منظر تھا۔ یہ ریلوے سٹیشن ایک بہت بڑے شیڈ کی صورت میں قائم ہے جس کی چھت کا ایک مخصوص حصہ شیشے کا ہے۔ پلیٹ فارم کے عین وسط میں اُگے انتہائی خوبصورت ، سرسبز و شاداب اور طویل القامت درختوں نے بند کمرے میں نخلستان کا روپ دھار رکھا تھا۔ اصطلاح میں اس تجربے کو ایٹریم کہتے ہیں جس کا پہلا پاکستانی تجربہ لاہور کے ایک بڑے ہوٹل نے قد آدم گملوں کی مدد سے کیا تھا مگر میڈرڈ کا یہ جنگل نما باغیچہ باقاعدہ زمین میں اگایا گیا ہے اور شیشے کی چھت اسے سورج کی روشنی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت کھل بھی جاتی ہے تاکہ پودے بارش کا لطف بھی اٹھا سکیں۔

قرطبہ میں ڈپریشن

میڈرڈ سے قرطبہ کا علاقہ بالکل ہمارے پوٹھو ہار کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ ہر طرف غیر ہموار زمین پر زیتون اور انگور کے باغات تاحد نظر دکھائی دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو ، ملک معراج خالد مرحوم اور سردار آصف احمد علی نے پوٹھو ہار کے علاقے میں زیتون کاشت کروانے کی سر توڑ کوششیں کیں تاہم باوجود اس کے کہ یہ علاقہ اس فصل کے لئے نہایت موزوں ہے، یہ کوششیں کبھی بار آور ثابت نہ ہوئیں۔ لگتا ہے اس قسم کے ہر پراجیکٹ کہ جس میں پاکستان کا فائدہ ہو سکے ہم محض زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں جا سکے۔ شاید کسی کی بدعا لگی ہوئی ہے پاکستانی قوم کو۔

قرطبہ کی جامع مسجد دیکھنے جب ہمارا یہ ”سوٹ آلود“ قافلہ بعد دوپہر پہنچا تو دھیرے دھیرے ڈپریشن حملہ آور ہونے لگی۔ بہت سے کرم فرماؤں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ مسجد ایک گرجا بن چکی ہے۔ ایک دو دوستوں نے زیر لب بڑ بڑاتے ہوئے جائے وضو بارے بھی دریافت کیا اور ایک آدھ نے اپنے با وضو ہونے کا اعلان بھی فرمایا مگر عین اس وقت ان پر گھڑوں پانی پڑ گیا جب بتایا گیا کہ مسجد قرطبہ میں نماز پڑھنے کی سخت ممانعت ہے۔

ہمارے ایک سینئر رپورٹر جنہیں ہم غالباً پچھلے تین سو سال سے اردو رپورٹنگ کرتے دیکھ رہے ہیں ، غم غلط کرنے مسجد کے باہر ایک چبوترے پر جا بیٹھے تاکہ آتی جاتی خوبرو ہسپانوی دوشیزاؤں کا ”مطالعاتی جائزہ “ لے سکیں۔ چار پانچ بزرگ ہسپانوی پہلے سے ہی اسی چبوترے پر بیٹھے پائپ اور سگار وغیرہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ رپورٹر مذکور ان حضرات کی باتیں سننے اور کسی حد تک سمجھنے کی ناکام اور احمقانہ سی حرکت کرنے لگے۔ عین اس وقت ایک انتہائی خوبصورت اور نیم ملبوس لڑکی کہیں سے وارد ہوئی اور بوڑھے ہسپانویوں نے محبت بھرا قہقہہ لگا کر اس کا استقبال کیا۔ وہ ان میں سے کسی ایک کی غالباً پوتی یا نواسی تھی اور ایک ایک کر کے سب کے ساتھ گلے ملتی اور منہ چومتی جا رہی تھی۔ جوں جوں لڑکی ”بزرگ بوسی“ کرتی ان کے قریب آتی گئی ان کے چہرے کا رنگ بدلتا گیا۔ نجانے کیوں انہیں امید لاحق ہوئی کہ لڑکی چبوترے پر بیٹھے تمام افراد کے ساتھ یکساں سلوک کرے گی چنانچہ جب تک یہ نوجوان حسینہ تیسرے بابے کے ساتھ بغلگیر ہو رہی تھی ہمارے دوست کی امید یقین محکم میں بدل چکی تھی۔ چوتھے بابے کی باری ختم ہوتے ہی یہ حضرت کسی انجانی قوت کے زیر اثر اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر عجیب و غریب سی بیوقوفانہ استقبالی نظروں سے لڑکی کو دیکھنے لگے۔ اس بیچاری نے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا اور اس سے پہلے کہ وہ معصوم غلط فہمی کی بنیاد پر صدیوں کے اس محروم پاکستانی کی تشنگی رفع کرنے کی مرتکب ہوتی، اس نے اپنے رشتہ داروں سے پوچھا کہ کیا یہ آدمی بھی آپ کا دوست ہے۔ بابوں میں سے ایک جو شکل سے ہی کافی کھوچل اور کایاں نظر آتا تھا ، نہایت شستہ ہسپانوی زبان میں حیرت، لا علمی اور قدرے ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگا۔ کریم کلر سوٹ میں ملبوس ہمارے ساتھی کو پسینہ تو پہلے ہی کافی آ رہا تھا اب بیچارے کو اپنی خواہشات پر اوس پڑتی بھی محسوس ہوئی۔ (جاری)

Share   مال جی، تجھے اور کیا کھپے….سب جھوٹ…امر جلیل

کسی بھی لحاظ سے مال جی کا تعلق لال جی سے نہیں ہے۔ مال جی رشتے میں لال جی کے ٹیلنٹڈ کزن نہیں لگتے۔ بس ان دونوں کے نام ملتے جلتے ہیں۔ لال جی اور مال جی۔ جس طرح لال جی ہمارے ہر دل عزیز صدر جناب آصف علی زرداری کے جگری دوست ہیں اسی طرح مال جی میرے جگری یار ہیں۔ جب لوگوں کو پتہ چلا کہ مال جی میرا جگری یار ہے تب کافی دوست میرے ہاں کافی پینے اور مجھے سمجھانے آئے۔ باگڑ بلے نے پوچھا ”کیا یہ سچ ہے کہ مال جی تیرا جگری یار ہے؟“

”ہاں، مال جی میرا جگری دوست ہے جیسے لال جی زرداری صاحب کا جگری دوست ہے“ میں نے پوچھا ”اس میں خرابی کیا ہے؟“

”زرداری صاحب ٹھہرے صدر مملکت…وہ جانیں ان کا کام جانے۔“ باگڑ بلے نے کہا ”تو ہے گیدڑ مملکت۔ تجھے مال جی سے دور رہنا چاہئے“۔

”کیسی باتیں کر رہے ہو باگڑ بلے“ میں نے کہا ”مال جی میرا جگری دوست ہے“۔

باگڑ بلے نے کہا ”مال جی جیسے لوگ جب جگری دوست بنتے ہیں تب جگر کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں“۔

”کیا بکواس کر رہے ہو“ میں غصے پر قابو نہ رکھ سکا۔

”باگڑ بلا ٹھیک کہہ رہا ہے“ حکیم لقمان نے کہا ”جگر بڑی نازک شے ہے۔ جب ہم مال جی جیسے لوگوں کو جگری یار بناتے ہیں تب ہمیں یرقان ہو جاتا ہے۔ پھر ہمیں ہیپاٹائٹس اے، اس کے بعد ہیپاٹائٹس بی اور سی اور آخر میں ہیپاٹائٹس زی ہو جاتا ہے اور پھر ہم مر جاتے ہیں“۔

ان کی بیہودہ دلیل رد کرتے ہوئے میں نے کہا”لال جی جیسے کئی کھرب پتی زرداری صاحب کے جگری دوست ہیں۔ ان کو نہ ہیپاٹائٹس اے ہے اور نہ بی ہے، نہ سی ہے اور نہ ہیپاٹائٹس زی ہے۔ اب تو لال جی، پیلا جی اور کالا جی جیسے جگری دوستوں کی وجہ سے ان کی پرانی بیماریاں بھی رفع دفع ہو گئی ہیں۔ ان کی کمر میں تکلیف غائب ہو گئی ہے، ریڑھ کی ہڈی بھی ٹھیک ہو گئی ہے، دل کا معاملہ بھی ٹھیک ہو گیا ہے۔ آپ سب کے اندیشے غلط ہیں“۔

میں جانتا ہوں میرے احباب مجھ سے جلتے ہیں۔ وہ دیکھ نہیں سکتے کہ چائے کی استعمال شدہ پتی نئی پیکنگ میں بیچنے والا ارب پتی مال جی میرا جگری دوست کیوں ہے۔ وہ مجھے گھاس ڈالتا ہے۔ ان کو گھاس کیوں نہیں ڈالتا؟ ایسے عامیانہ حسد سے میں طالبعلمی والے زمانے سے واقف ہوں۔ تب میں کالج میں پڑھتا تھا۔ ایک تو میں رنگ کا کالا تھا۔ جم میں ورزش کرتے کرتے میں بھالو بن گیا تھا۔ ہیئت سے ہیبت ناک لگتا تھا۔ وائے قسمت، کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی مجھ سے محبت کرتی تھی۔ اس کا نام پری وش تھا۔ وہ لگتی بھی پریوں جیسی تھی۔ سنا تھا کہ وہ صحافت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کوہ کاف سے کراچی آئی تھی۔ پری وش صحافت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کسی اخبار کی ایڈیٹر لگنا چاہتی تھی اور میں صحافت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کسی اشاعتی ادارے میں پروف ریڈر بننا چاہتا تھا۔

پری وش کا مجھے اس قدر چاہنا کالج کے دیگر لڑکوں اور نوجوان ٹیچرز کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ آئے دن میرا مذاق اڑاتے تھے۔ میرے لئے مسائل کھڑے کرتے تھے۔ میرے بارے میں وال چاکنگ کرتے تھے۔ ٹوائلیٹس میں میرے خلاف گندے فقرے لکھتے تھے۔ سچ جانیے میں خود پریشان رہتا تھا۔ سوچتا تھا کہ کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی کالج کے سب سے ہیبت ناک لڑکے کو کیوں چاہتی ہے؟ ایک روز میں ایک پیر سائیں کے پاس گیا، وہ پیر سائیں پہنچے ہوئے تھے۔ وہ خود انتخاب نہیں لڑتے تھے دوسروں کو الیکشن لڑواتے تھے۔ وہ بھولو پہلوان کی طرح ہارنے سے ڈرتے تھے اس لئے اپنے اسلم، اعظم، اکرم اور گوگے کو الیکشن میں جھونک دیتے تھے۔ میں ان سے ملا۔ اپنی الجھن سے ان کو آگاہ کیا۔ میری بات پیر سائیں نے غور سے سنی۔ کافی دیر تک آنکھیں بند رکھنے کے بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں۔ میری طرف غور سے دیکھا اور کہا…”پری ہمیشہ جن سے محبت کرتی ہے“۔

میں نے تعجب سے پیر سائیں کی طرف دیکھا۔

پیر سائیں نے کہا ”پری وش سچ مچ کی پری ہے۔ وہ تجھے جن سمجھتی ہے، اس لئے تجھ سے پیار کرتی ہے“۔

اور پھر، اس سے پہلے کہ پری وش اور میں صحافت میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرتے اور وہ کسی اخبار کی ایڈیٹر لگتی اور میں اسی ادارے میں پروف ریڈر بنتا، ایک گھَٹنا یعنی مصیبت نے ہمیں گھیر لیا۔ پری وش کو پتہ چل گیا کہ میں لگتا تو جن تھا لیکن جن نہیں تھا، انسان کا بچہ تھا۔ پری وش کو دکھ پہنچا۔ وہ پڑھائی چھوڑ کر کوہ کاف چلی گئی۔ میں نے بھی دلبرداشتہ ہو کر پڑھائی چھوڑ دی۔ ایک عرصے تک مارا مارا پھرنے کے بعد میں نے جھوٹ بولنے اور جھوٹ لکھنے کا سہرا اپنے سر پر سجا لیا۔ اب میرا اوڑھنا بچھونا جھوٹ بولنا ہے اور سچ کا قلعہ قمع کرنا ہے۔ لوگ باسٹھ برسوں سے سچ سنتے آئے ہیں۔ سچ سنتے سنتے ان کے کان پک گئے ہیں۔ بس، بہت ہو چکا۔ اب لوگ جھوٹ سنیں گے اور سکھ کا سانس لیں گے۔

مگر میں تو آپ کو اپنے جگری دوست مال جی کا قصہ سنا رہا تھا۔ بے انتہا دولت ہے اس کے پاس۔ امریکہ اور یورپ میں اس کی املاک ہیں۔ ملداروں کے جزیروں پر اس کے ولاز ہیں جہاں اس کے اپنے ہیلی پیڈ ہیں۔ ہیلی کاپٹر ہیں، لیموسین ہیں، کاروبار ہیں۔ یوروز، ڈالرز اور پاؤنڈز سے کھچاکھچ بھرے ہوئے بینک اکاؤنٹ ہیں۔ کیا کچھ نہیں ہے اس کے پاس!

مال جی اگر سلیپنگ پلز نہ لے تو اسے رات بھر نیند نہیں آتی۔ تھائی لینڈ اور چین کی مساج کرنے والیاں رات بھر اس کے سر کی اور جسم کی مالش کرتی رہتی ہیں، پھر بھی اسے نیند نہیں آتی۔ اسے نیند تب آتی ہے جب وہ سلیپنگ پلز نگلتا ہے۔

”تجھے چین کی نیند کیوں نہیں آتی؟“ ایک روز میں نے مال جی سے پوچھا تھا ”تو گھوڑے بیچ کر کیوں نہیں سوتا؟“

مال جی نے اطمینان سے جواب دیا تھا ”میں گھوڑے بیچتا نہیں، میں گھوڑے خریدتا ہوں۔ ان میں دو ٹانگوں والے گھوڑے بھی شامل ہوتے ہیں“۔

”تیرے پاس سب کچھ تو ہے“ میں نے مال جی سے پوچھا ”تجھے اور کیا کھپے؟“

مال جی نے مسکراتے ہوئے کہا ”مجھے اور بہت کچھ کھپے“۔

”اور کتنا کچھ کھپے؟“ میں نے اس سے پوچھا تھا۔ مال جی نے مسکراتے ہوئے کہا ”مجھے پاکستان کھپے“۔

”پاکستان تو کھپ چکا ہے“ میں نے کہا ”تو اور کسی چیز کی طلب کر“۔

چند لمحے سوچنے کے بعد مال جی نے کہا…”مجھے پوری دنیا کھپے“۔

Share   وفاقی بجٹ۔ مقابل ہے آئینہ….معیشت کی جھلکیاں…ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی

مالی سال 2010-11ء کا وفاقی بجٹ نہ تو عوام دوست ہے اور نہ ہی ان زبردست چیلنجز اور خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہیجو وطن عزیز کو درپیش ہیں۔ بجٹ تجاویز میں زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے ایک طرف تو آئی ایم ایف کی شرائط اور احکامات کی پابندی کی گئی ہے اور دوسری طرف طاقتور طبقوں اور نادہندگان کے مفادات کا ایک مرتبہ پھر تحفظ کیا گیا ہے اور عملاً سارا بوجھ 17 کروڑ عوام اور ملکی معیشت کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر خوشنما الفاظ کا مجموعہ تھی۔ تقریر میں قابل تعریف عزائم کا بھی اظہار کیا گیا تھا، لیکن بجٹ تجاویز ان عزائم سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ بجٹ ارادی طور پر ملک کو نہ صرف خود انحصاری سے دور کرے گا بلکہ اگلے سال پاکستان کی معیشت کو اتنا زیادہ خراب کر دے گا کہ حکومت کو معیشت کی بحالی اور غربت میں کمی کے نام پر درمیانی مدت کیلئے ایک نئے قرضے کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنے کا جواز مل جائے گا۔ توقع ہے کہ نومبر 2010ء تک آئی ایم ایف سے 11.3/ارب ڈالر کے قرضے کی بقایا اقساط پاکستان کو مل جائیں گی۔

پاکستان کو اس کے بعد آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکلنا تھا لیکن ایسا نظر آ رہا ہے کہ استعماری طاقتوں کی حکمت عملی کے مطابق ایک مرتبہ پھر پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسوا کر پاکستان کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دیا جائے گا۔ یہ قومی خودکشی کے مترادف ہو گا۔ دریں اثناء امریکہ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالا جاتا رہے گا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں امریکی مفادات کے حصول کیلئے اپنے ہی ملک میں فوجی آپریشن کا دائرہ وسیع کرتا رہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کی معاشی شرائط سے معیشت مزید خراب ہو گی اور وطن عزیز میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور عوام کی محرومیاں بڑھتی رہیں گی۔ ان حالات میں حکومت و قوم کے درمیان اعتماد کا بحران سنگین ہونے سے ملک غیر مستحکم ہو گا اور حکومت کمزور ہو گی چنانچہ وہ بیرونی احکامات کی بے چوں و چرا تعمیل کرتی چلی جائے گی جن سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات دوچند ہو جائیں گے۔

قارئین کرام یہ حقائق اور اعداد و شمار دل تھام کر پڑھیں کہ یہ بجٹ ایک ایسے موقع پر پیش کیا گیا ہے جب موجودہ حکومت کے دور میں گزشتہ دو برسوں میں (1) ملک کے اوپر قرضوں کے حجم میں تین ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے اور ان قرضوں کا حجم تقریباً 9400/ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ واضح رہے کہ آزادی کے 52 برس بعد 30 جون 1999ء کو ان قرضوں کا حجم تین ہزار روپے سے کم تھا (2) معیشت کی شرح نمو 2.6 فیصد سالانہ رہی جو کہ پاکستان کی تاریخ کی بدترین شرحوں میں سے ایک ہے (3) دو برسوں میں بجلی کے نرخوں میں 60 فیصد، پٹرول کے نرخوں میں 30 فیصد، مٹی کے تیل کے نرخوں میں 86 فیصد اور ڈیزل کے نرخوں میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 25 فیصد کی زبردست کمی کی گئی (4) مالی سال 2005ء میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 5.4/ارب ڈالر تھا جو موجودہ حکومت کے دور میں مالی سال 2009ء میں کم ہو کر 3.7/ارب ڈالر اور موجودہ مالی سال میں مزید کم ہو کر صرف تقریباً 2/ارب ڈالر رہ گیا، یہ کمی تشویشناک ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں حکومت اور حکومتی اداروں کے شاہانہ اخراجات میں اضافہ ہوتا رہا مگر یہ امر افسوسناک ہے کہ بے نظیر شہید کے جانثاروں نے گزشتہ دو برسوں میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مختص کی جانے والی رقوم میں تسلسل کے ساتھ کٹوتی کی۔

گزشتہ چند دنوں میں دو انتہائی تکلیف دہ رپورٹیں سامنے آئیں۔ اوّل سوئٹزرلینڈ کے ایک ممتاز ادارے نے 2 جون 2010ء کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی تقریباً نصف آبادی (48.6%) کو غذائی قلت کا سامنا ہے یعنی ان کو پیٹ بھر کر کھانا میسر نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں غریبوں کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے چنانچہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق آٹا خریدنے کے بھی قابل نہیں رہے اور یہ کہ گزشتہ ایک برس میں پاکستان میں گیہوں کی کھپت میں 10 فیصد کی زبردست کمی ہوئی ہے۔ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ آبادی میں دو فیصد اضافے کے باوجود گیہوں کے استعمال میں کمی ہونا انتہائی تشویشناک بات ہے۔ وطن عزیز میں 68 ملین افراد انتہائی غربت کا شکار ہیں اور انہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آ رہی جبکہ ملک میں حکومت اور حکومتی اداروں کے شاہانہ اخراجات بدستور جاری ہیں اور ملک کے اندر امارات کے جزیرے ہماری بے حسی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔

اس حقیقت کا ادراک کیا جانا چاہئے کہ اوّل، بجٹ میں ایک بھی ایسا انقلابی قدم نہیں اٹھایا گیا جو مندرجہ بالا پانچ بڑی خرابیوں میں بہتری لا سکے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ دوم، وطن عزیز میں بجلی اور پانی کی زبردست قلت دور کرنے کیلئے اور انفرااسٹرکچر بہتر بنانے کیلئے اگلے چند برسوں میں 75/ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ، سیاسی افراتفری، بگڑتے ہوئے معاشی اشارئیوں اور کرپشن میں اضافہ ہونے سے بیرونی سرمایہ کاری کا حجم تیزی سے گر رہا ہے اور ملک قرضوں کے شیطانی چکر میں پھنستا جا رہا ہے اور سوم، بجٹ میں عوام کو جو ریلیف دیئے گئے ہیں، ان سے کئی گنا رقوم دوسرے ہاتھ سے ان سے واپس لے لی گئی ہیں۔ وفاقی بجٹ میں جو تجاویز رکھی گئی ہیں ان میں سے چند پر کچھ گزارشات پیش ہیں:

(1) ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 667/ارب روپے رکھا گیا ہے جو کہ مایوس کن حد تک کم ہے، جس میں سے 1100/ارب روپے قرضوں و سود کی ادائیگی اور دفاع کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کو ٹیکس اور مجموعی ملکی پیداوار کا 10.2 فیصد کا تناسب ورثے میں ملا تھا جبکہ 3 برس بعد جون 2011ء کو یہ تناسب 9.8 فیصد رہے گا۔ گزشتہ 20 برسوں سے مختلف حکومتیں اس تناسب کو بڑھانے کی بات کرتی رہی ہیں۔ 1995-96ء میں یہ تناسب 14.3 فیصد تھا جبکہ اب یہ تناسب تقریباً 9 فیصد ہے۔

عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے باوجود تناسب نہ بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں 750/ارب روپے سالانہ کی ٹیکسوں کی چوری ہو رہی ہے یا حکومت نے ٹیکسوں میں غیر ضروری چھوٹ دی ہوئی ہے۔ ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر 3 لاکھ روپے سالانہ سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر انکم ٹیکس نافذ اور وصول کیا جائے تو مالی سال 2011 ء میں 1667/ارب روپے کے مقابلے میں 2100/ارب روپے وصول کئے جا سکتے ہیں۔ اس طرح حکومت پٹرول پر ہر قسم کے ٹیکس ختم کر کے اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے فی لیٹر کمی کر سکتی ہے۔ اس کے بغیر مہنگائی اور غربت میں کمی کے دعوے بے معنی ہوں گے۔

(2) حکومت اور حکومتی اداروں کے غیر پیداواری اخراجات میں تقریباً 100/ارب سالانہ کی کمی کی گنجائش ہے مگر بجٹ میں اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی جو کہ مایوس کن ہے۔(3) 7 برس قبل حکومت کے معاشی منتظمین کا کہنا تھا کہ اگر ٹیکس کی چوری روک دی جائے تو ہر قسم کے سرچارج ختم ہو جائیں گے اور جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کے باوجود ٹیکسوں کی مد میں آمدنی بڑھے گی۔ نئے بجٹ میں 3 ماہ کیلئے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 16 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی گئی ہے جبکہ یکم اکتوبر 2010ء سے 15 فیصد کی شرح سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس نافذ کیا جائے گا اور عملاً ایک منی بجٹ آئے گا جس سے وطن عزیز میں مہنگائی کا ایک اور ریلا آئے گا۔(4) مالی سال 2011ء میں افراط زر اور بجٹ خسارے کے اہداف حاصل ہونے کا امکان نظر نہیں آ رہا جبکہ ملک میں غربت اور بے روزگاری بڑھتی رہیگی اس بجٹ کو مکمل طور سے رد کر دیا جانا چاہئے اور قوم کو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ آئی ایم ایف سے نئے قرضے نہیں لئے جائیں گے اور مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں ایک نیا بجٹ مرتب کیا جائے جس میں بچتوں کی شرح بڑھانے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جائے وگرنہ پاکستان اپنی بچی کھچی معاشی و سیاسی آزادی بھی کھو دے گا اور ملک خانہ جنگی کی زد میں بھی آ سکتا ہے۔

Share   نمبرون….جرگہ…سلیم صافی

فخر کیوں نہ کروں۔ عالمی سطح پر ”نیک نامی“ میں نمبرون قرار پانے والے ملک کے اس صوبے سے تعلق ہے ‘ جس سے نمبرون ہونے کا اعزاز کبھی بھی کوئی نہیں چھین سکا۔ پہلے یوں نمبرون تھا کہ اس کا سرے سے کوئی نام ہی نہیں تھا اور اب یوں نمبرون ہے کہ ایک کی جگہ اسے دو نام (خیبر بھی اور پختونخوا بھی) عنایت کئے گئے۔ ایک زمانہ تھا کہ مہمان نوازی‘ بہادری اور احترام آدمیت کے حوالے سے نمبرون تھا اور اب خونریزی‘ تخریب کاری ‘ بدحالی اور جہالت کے میدانوں میں نمبرون ہے۔ ماضی میں اسے دنیا میں سکواش میں نمبرون صوبے کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا اور اب اسے بھرے مجمعوں میں انسانی سروں کے ذریعے والی بال کھیلنے سے پہچانا جاتا ہے ۔ایک اعزاز تو ماشا ء اللہ ایسا ہے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس کا طرہ امتیاز ہے اور وہ ہے غربت میں نمبرون ہونے کا اعزاز ۔ ا س اعزاز سے اسے متحدہ مجلس عمل کے ”پاکبازوں“ کی حکومت محروم کرسکااور نہ باچا خان کے جانشینوں کو اس کی ہمت ہوئی۔ متحدہ مجلس عمل نے پانچ سالوں میں اسے بدانتظامی اور عسکریت پسندی کے میدانوں میں نمبرون بنا دیا اور اب اے این پی نے پی پی پی کو ساتھ ملاکر کرپشن میں نمبرون ہونے کا تمغہ اس کے سینے پر سجادیا ۔ اس بدقسمت صوبے کو یہ اعزاز ان لوگوں کی حکومت میں حاصل ہورہا ہے جواس کی نام پر سیاست کرتے ہیں اور جو باچا خان اور ولی خان کے سیاسی وارث ہیں۔ وہ باچا خان جن کے فقر اور پاکبازی کا اس کے دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں اور وہ ولی خان جنہیں غدار کے خطابات سے تو نوازا گیا لیکن جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی جیسی حریف جماعتیں بھی کبھی ان کے خلاف بدعنوانی کا الزام عائد کرنے کی ہمت نہ کرسکیں۔ باچا خان اور ولی خان کی تو خیر بات ہی کیا‘ ابھی چند روز قبل اس جماعت کے سابق صدر اجمل خٹک اس دنیا سے رحلت کرگئے ۔ پاکستان تو کیا سوویت یونین اور یورپ تک کے خزانوں کے در ان کے لئے وا تھے لیکن دو کمروں کے جس گھر میں پیدا ہوئے تھے ‘ اسی گھر سے ان کی میت اٹھائی گئی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کرپشن میں نمبرون صوبے کا اعزاز حاصل کرنے والی حکومت کے ترجمان فرماتے ہیں کہ رپورٹ سازش کے تحت تیار کی گئی ہے جس کا مقصد ان کو بدنام کرنا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس صوبے کی حکومت نے پختون عوام کے سوا کسی اور کا کیا بگاڑا ہے جو اس کے خلاف سازش کرے گا۔ یہ جماعت اسٹیبلشمنٹ کے قدموں میں یوں بیٹھ گئی ہے کہ مسلم لیگ(ق) کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ امریکہ کی تابعداری اس شان سے کررہی ہے کہ پرویز مشرف کو بھی رشک آنے لگا ہے ۔ آصف علی زرداری کے ساتھ اس کی دوستی اور وفاداری کا یہ عالم کہ اس جماعت کے سربراہ تادم مرگ ان کا زیراحسان رہنے کی دہائی دے رہے ہیں ۔ میاں نواز شریف کے ساتھ قربت کی یہ حالت کہ اس جماعتوں کے اصل مالکوں کی ناراضگی سے بچنے کے لئے وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے بڑے کارآمد لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرانے سے گریز کررہا ہے ۔ اب عالمی سطح پر سازشوں کے لئے مشہور امریکہ سے وفاداری کا رشتہ ۔ پاکستان کے اندر سازشوں کے لئے مشہور قوتوں کے ساتھ تابعداری کا تعلق۔ حکمران شخصیات کے ساتھ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر منفرد دوستی ۔ پھر سازش کے لئے کون رہ جاتا ہے اور اس جماعت یا اس کی حکومت کے خلاف سازش کرے گا تو کون کرے گا؟سازش کے لئے ایک صوبے کے عوام رہ جاتے ہیں اور چونکہ ان کے خلاف سازش میں یہ حکومت بھی شریک ہے ‘ اس لئے شاید بدلہ لینے کے لئے سازش کرتے ہوئے انہوں نے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے نمائندوں کو حقائق بتادئے۔

اگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سازش ہے توسوال یہ ہے کہ اس طرح کی سازش باچا خان کے خلاف کیوں نہیں ہوئی جو بیک وقت اپنے دور کے استعمار اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ٹھکرارہے تھے؟ ایسا الزام خان عبدالوی خان کے خلاف کیوں نہیں لگا جو ساری زندگی ہوا کے مخالف سمت میں چلتے رہے ؟ بیگم نسیم ولی خان کے خلاف ایسی سازش کیوں نہیں ہوئی جو بھٹو جیسے طاقتور حکمران کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہوئی تھی ؟ زبان درازی کے لئے مشہور فرید طوفان کیوں اس سازش کا نشانہ نہیں بنے جو پرویز مشرف کے خلاف تب بھی بولتے رہے جب باقی ان کے قومی احتساب بیورو کے خوف سے باقی سب خاموش تھے؟

نمبرون حکومت کے ترجمان ثبوت مانگتے ہیں ۔ حالانکہ جس پریس کانفرنس میں انہوں نے ثبوت مانگے ‘ اسی ہی پریس کانفرنس میں وہ یہ بھی اعلان کررہے تھے کہ وزیراعلیٰ کے ایک عزیز کے خلاف زلزلہ زدگان کے لئے آنے والی رقم میں خردبرد کے الزام میں انکوائری چل رہی ہے ۔ اسی پریس کانفرنس میں وہ یہ بھی اعلان فرماتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے ایک اور دست راست بیوروکریٹ کے خلاف (پورے ہیلی کاپٹر کو غائب کرنے کے الزام میں) انکوائری جاری ہے لیکن انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ صوبے میں اہم عہدوں پر تعیناتی کے لئے اب بھی سرکاری افسران اسی ہی صاحب سے رجوع کرتے ہیں ۔ یہ کیا ثبوت نہیں کہ ملٹری آپریشن کا ایک سال گزر جانے کے بعد بھی سوات کے متاثرین بحالی کے منتظر ہیں حالانکہ اس نام پر اربوں روپے اس حکومت کے پاس آگئے ہیں ؟۔ کیایہ ثبوت نہیں کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پر اے این پی کے اپنے منتخب ایم پی ایز کی بجائے ایسے خاص لوگوں کا قبضہ ہے جو کل تک دوسری جماعتوں کے لیڈروں کے خاص لوگ تھے؟ کیا یہ ثبوت نہیں کہ حیات آباد میں اربوں روپے کی سرکاری زمین کو کروڑوں کی رشوت کے عوض طے پانے والے سودے کو اے این پی ہی کا ایک ایم پی اے سٹینڈنگ کمیٹی میں لے گیا اورپھرانہیں بھی فریقین کی طرف سے کروڑوں کی پیشکشیں کی گئیں لیکن باچا خان کے اس حقیقی پیروکار نے غریب پختونوں کا سودا نہیں کیا؟ کیا یہ ثبوت نہیں کہ دہشت گردوں کے سامنے سینے تھان کرکھڑے رہنے والے پولیس کے ہاتھوں میں جو نئی خریدی گئی کلاشنکوفیں تھمادی گئیں ‘وہ سب ناکارہ ہیں اور ہر ایک کی نالی چند فائرز کے بعد ٹیڑھی ہوجاتی ہے ؟ کیا یہ ثبوت نہیں کہ قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع اس صوبے میں کلاشنکوف کی گولیاں دگنے سے زیادہ قیمت پر خریدی گئیں اور کیا یہ ثبوت نہیں کہ جرات اور بہادری کی نئی تاریخ رقم کرنے والی پولیس کے لئے غیرملکی امداد کی رقم سے جو بلٹ پروف جیکٹ خریدے گئے ‘ ان کا معاملہ ہائی کورٹ تک جاپہنچا ہے ۔کیا یہ ثبوت نہیں کہ صوبے میں پٹواریوں اور تحصیل داروں کی تقرریوں کا معاملہ ایک خاص بندے کے سپرد ہے اور سکول ٹیچروں سے بھی مال بٹورا جارہا ہے۔ اور ہاں اگر دال میں کچھ بھی کالا نہیں تو پھر یہ دوبئی اور ملائشیاء میں کیا سرگرمیاں جاری ہیں؟

نمبرون حکومت کے ترجمان یاد رکھیں کہ اقتدار انسان کو اندھا اور بہرہ ضرور بنادیتا ہے لیکن عوام اندھے ہیں اورنہ بہرے ۔ بس اپنی تباہ حالی نے ان کو گونگا بنا دیا ہے جبکہ حکمرانوں کی زبان اقتدار کے دنوں میں زیادہ ذرا زیادہ چلتی ہے ۔اپوزیشن کے دنوں میں جو سیاستدان اپنا دو سطری خبر چھپوانے کے لئے اخبارات کے دفاتر کے طواف کرتے رہتے ہیں ‘ اقتدار میں آکر ان کے سامنے بھی ٹی وی کیمروں کی قطار لگی ہوتی ہے ۔ اس لئے عوام کو بے وقوف بنانے کی ان کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے لیکن بقول ولی خان مرحوم حقائق حقائق ہیں۔ نمبرون صوبے کے عوام کی بدقسمتی اور حکمرانوں کی خوش قسمتی ہے کہ نہ صرف مقامی میڈیا پر ان کی گرفت مضبوط ہے بلکہ دہشت گردی کی وجہ سے میڈیا کا سارا توجہ اس ایشو کی طرف ہے اور اس عفریت کی وجہ سے بعض اوقات حکمران ہم جیسوں کی بھی ہمدردی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ دوسری طرف مرکز میں کرپشن کا اس قدر غلغلہ ہے کہ میڈیا کی توجہ صوبوں کی طرف جاتی ہی نہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہاں سب ٹھیک ہے ۔ سب ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں۔

Share   اک ولولہ تازہ دیا تو نے دلوں کو….مملکت اے مملکت…محمود شام

وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ کیا اعتماد تھا،کیا گرفت تھی۔ الفاظ، اعداد و شمار حقائق جیسے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ کروڑوں لوگوں کے منتخب نمائندے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہے تھے۔ بہت عرصے بعد اسمبلی میں ایسا خطاب سننے کو مل رہا تھا۔ جس میں ایک تسلسل تھا، روانی تھی، دلائل تھے۔ جس سے سننے والے قائل ہورہے تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کا تیسرا بجٹ، تیسرا وزیر خزانہ، پہلی وزیر مملکت برائے خزانہ بھی پہلے پی پی پی سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ دوسرے وزیر خزانہ سینیٹ کے رکن تھے۔ ان کی بھی پی پی پی سے وابستگی نہیں تھی۔ اب تیسری شخصیت جو اسی روز وزیر خزانہ بنی۔ یہ بھی پی پی پی کے رکن نہیں ہیں۔ انتخاب اچھا ہے لیکن کس کا ہے۔ عالمی بینک کا، بین الاقوامی طاقتوں کا، پی پی پی کا ہرگز نہیں ہے۔ اس حقیقت سے ملک کی سب بڑی قومی سیاسی جماعت کی ملکی مسائل کے حل سے خلوص اور سنجیدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے سب سے اہم شعبے معیشت کے لئے اس کے پاس کوئی فرد نہیں ہے۔ عالمی ادارے ہی ہماری مدد کو آتے ہیں۔ یہ بحث ہمارے ہاں بھی چلتی رہی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہمارے پڑوسی بھارت میں بھی یہ امر موضوع گفتگو رہتا ہے کہ کیا اچھے سیاستدان اچھے معیشت دان ہوسکتے ہیں اور کیا اچھے معیشت دان اچھے سیاستدان ہوسکتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب منطق ہے کہ پسماندہ ملکوں کا سب سے کمزور شعبہ معیشت ہے اور جو لوگ قیادت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ معیشت سے نابلد ہوتے ہیں اور اسے اہمیت بھی نہیں دینا چاہتے۔ اگر کوئی ماہر معیشت سیاست میں آجائے سیاسی برادری اسے قبول نہیں کرتی، اس کا مذاق اڑاتی ہے۔ سابق وزیر خزانہ اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جن پالیسیوں کے سبب اس وقت کی حکومت کو کامیابی نصیب ہوئی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مستحکم رہی، سرمایہ کاری ہوئی، ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے۔ اس کے مرکز و محور کو خود ان کی پارٹی نے ٹکٹ دینے سے انکار کردیا۔ سیاست دانوں اور معیشت دانوں میں یہ ٹکراؤ اور تضاد قطعی طور پر غیر منطقی ہے کیونکہ آج کل سیاست کی بنیاد معیشت پر ہے۔ چاہے وہ بین الاقوامی ہو، علاقائی یا ملکی۔ وہی ممالک عالمی قیادت کرپارہے ہیں جن کی معیشت مضبوط ہے، جہاں اقتصادی استحکام ہے۔ امریکہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس کے بعد یورپ کے ممالک۔ ایشیا میں چین ایک اعلیٰ نظیر ہے۔ اس وقت وہ دوسری بڑی معیشت بن رہا ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا اور بڑی حد تک بھارت، اقتصادی بحالی کے بعد ہی مشکلات سے باہر نکل سکے ہیں۔ اب ترکی اس بحالی میں پیش پیش ہے۔ کامیاب سیاسی جماعت، کامران سیاست دان وہی ہوسکتے ہیں اور اپنے ملک کو بحران سے وہی نکال سکتے ہیں جو اقتصادی بصیرت اور علم رکھتے ہوں۔ بھارت میں حالات اس وقت بدلے جب ایک ماہر معیشت وزیر خزانہ بنے پھر ان کو وزیراعظم بننا بھی نصیب ہوا۔ پاکستان میں شوکت عزیز بھی وزیرخزانہ کے بعد وزیراعظم بنے کون جانے حفیظ شیخ کے معاملے میں بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرائے۔ اچھا معیشت دان اچھا سیاست دان بن سکے یا نہیں لیکن اچھے سیاست دان کا اچھا معیشت دان ہونا ناگزیر ہے۔ معیشت کے بنیادی رموز سے آشنا شخصیات یقینا حقیقت پسند ہوتی ہیں۔اقتصادی طور پر باخبر افراد حقائق سے کبھی پہلو تہی نہیں کرسکتے۔ ان کی فکر اور منصوبہ بندی، اعداد و شمار حقائق پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی لئے ان کی بات میں اعتماد اور دلائل ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ جذباتی لفاظیت سے کام لے کر تالیاں نہیں بجوا پاتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہیں بعد میں اپنے الفاظ پر پشیمانی یا ندامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس وقت ہم دفاعی طور پر مستحکم ہیں کہ ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں، فوج بہت تربیت یافتہ ہے، جمہوری ادارے بھی کام کررہے ہیں، عدلیہ بھی آزاد ہے، میڈیا بھی۔ اس کے باوجود قوم کا ہر فرد پریشان ہے اور مستقبل سے مایوس ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف اقتصادی کمزوریاں ہیں۔ جن کو دور کرنے کے لئے ہمارے پاس بظاہر قیادت نہیں ہے۔ اسے نہ پارلیمینٹ درست کرسکتی ہے، نہ عدلیہ اور نہ میڈیا۔ اسے اقتصادی ماہرین ہی بحال کرسکتے ہیں۔ جس طرح ملکی نظام چلانے کے لئے آئین اور قانون کی پابندی ضروری ہے۔ اسی طرح معیشت چلانے کے لئے آج کی دنیا میں جن اصولوں اور قواعد پر عملدرآمد کر کے سرفہرست خوشحال مملکتیں کامیاب ہوئی ہیں، وہی اصول اور قواعد ہمیں بھی اپنانے ہوں گے۔ کسی قسم کی مصلحت اور سمجھوتے سے مالیاتی ڈسپلن نہیں مل سکتا۔ وزیر خزانہ جناب حفیظ شیخ کی تقریر سے قوم کو یہ امید ملتی ہے کہ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے وسائل پر انحصار بڑھا کر ہم معیشت کو بحال کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے وہی عزم اور خلوص چاہئے جو سیاسی مفاہمت کے حصول کی بنیاد بنا ہے۔ حفیظ شیخ صاحب نے اپنی بجٹ تقریر،اس سے پہلے اقتصادی جائزے کے اجراء اور پھر بعد از بجٹ پریس کانفرنس میں جو بنیادی کاوش کی ہے وہ ہے قومی قیادت کے انداز فکر کو تبدیل کرنا۔ بجٹ تقریر میں وہ شعوری طور پر یہ کوشش کرتے نظر آرہے تھے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو یہ باور کرواسکیں۔

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا

وہ انہیں ان کی اس عظیم ذمہ داری کا احساس دلارہے تھے جو 18کروڑ انسانوں کے منتخب ایوان کو عوام نے سونپی ہے۔ پھٹے کرتوں، ننگے پیروں، گرد میں اٹے ماتھوں، امید بھری آنکھوں والے ہم وطنوں کی غربت، مشکلات ، حسرتوں، خواہشوں اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنے اخراجات کم کریں۔ زندگی کا اسٹائل بدلیں۔ حکومتی خزانہ امانت ہے اسے صحیح خرچ کریں۔ غریبوں کے لئے جو اسکیمیں لائی جاتی ہیں اس کا فائدہ ان کو ہی پہنچنے دیں۔ ان کے نام پر امیر اور بااثر لوگ اپنے گھر نہ بھریں۔ ان کا یہ جملہ سونے میں تلنا چاہئے کہ اسلام آباد کے پاس پیسے کم ہوں گے تو ضائع ہونے کا خطرہ نہیں ہوگا۔ محنت لیاقت اگرچہ حفیظ شیخ صاحب کی اپنی ہے لیکن ان کی وجہ سے پوری منتخب حکومت کی ساکھ بہتر ہورہی ہے۔

ذسیاستدانوں میں ایسے باشعور، اقتصادی امور پر گرفت رکھنے والے لوگ کیوں نہیں ہوتے۔ موروثی سیاست تو ہمیشہ سے ہی رہی ہے لیکن پہلے جاگیردار سرمایہ دار اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر بھیجتے تھے۔ ممتاز دولتانہ، ذوالفقار علی بھٹو، حفیظ پیرزادہ، بے نظیر بھٹو اور بہت سی مثالیں ہیں لیکن 1980ء کے عشرے سے یہ سلسلہ باقاعدہ نظر نہیں آتا۔ اب تو یہ خاندان اولاد کو اپنے مقامی کالجوں میں بھی نہیں بھیجتے۔ جعلی ڈگریوں کا سہارا لیاجارہا ہے۔ نقل کرکے پاس ہونے والے اب اعلیٰ سرکاری افسر ہیں، پولیس حکام ہیں، وزیر ہیں، تو جیسا ماحول یہ پیدا کرسکتے تھے،کرچکے ہیں۔ عالمی برادری کو ہماری فکر ہے،ہماری بقا کی آرزو ہے۔ اس لئے وہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ عالمی اداروں میں خدمات انجام دیتے، پڑھے لکھے اقتصادی امور کے ماہرین کو وزارت خزانہ جیسی ذمہ داری سونپیں لیکن ایک گندی مچھلی تو سارے تالاب کو گندا کرسکتی ہے۔ ایک اچھی مچھلی سارے تالاب کو اچھا اسی وقت کرسکتی ہے کہ ساری مچھلیاں اس کا ساتھ دیں۔ کیا حفیظ شیخ کابینہ میں اپنے ساتھیوں کا ذہن بدلنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اس کے بعد ارکان اسمبلی کا، پھر قوم کا ۔ بیماریوں کے بارے میں ان کی تشخیص تو یقینا درست لیکن ان کے علاج کے لئے جیسے خصوصی معالجین درکار ہیں، اسپتال میں آلات اور ماحول ہونا چاہئے وہ ہیں یا نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، بلوچستان میں محرومیوں کی شدت، عام لوگوں میں مایوسی، نوجوانوں میں بیروزگاری یقینا بڑی مشکلات ہیں۔ لیکن بقول حفیظ شیخ یہی بحران اچھے مواقع میں بھی تبدیل ہوسکتے ہیں کیونکہ قدرتی وسائل اور پاکستانی افرادی قوت کی صلاحیت بہت مثبت پہلو ہیں۔ سوچنے کا انداز بدلنا اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

بہت سی قوموں نے بحرانوں کو ہی فیصلہ کن مواقع میں تبدیل کرکے ترقی کی ہے۔

Share   مظلوم عورتیں، مظلوم مرد!….روزن دیوار سے … عطاء الحق قاسمی

میں نے ناروے میں اپنی زندگی کے بہت سے دن گزارے ہیں۔ یہ وہ دن ہیں جو دو سالہ سفارت کاری کے علاوہ ہیں۔ میں دس بارہ مرتبہ ناروے گیا ہوں چنانچہ مجھے نارویجنز اور ناروے میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے تقریباً تمام مکاتب فکر سے ملاقات کا موقع ملتا رہا ہے۔ ناروے میرا پسندیدہ ملک ہے، یہ نہ صرف بے حد خوبصورت ہے بلکہ اس کے باسی بھی نیک دل ہیں۔ بیشتر صورتوں میں ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہیں۔ ہیر پھیر سے ناواقف ہیں۔ جھوٹ نہیں بولتے بلکہ ایک زمانے میں ہم لوگوں کے جھوٹ پر یقین بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ چالاک لوگ بالکل نہیں ہیں بلکہ آپ انہیں سادہ مزاج قرار دے سکتے ہیں۔ گزشتہ دو تین عشروں کے دوران ناروے کی امارت میں بہت اضافہ ہوا ہے چنانچہ اس کی حکومتیں عالمی برادری میں اپنے مقام کے حصول کے لئے عالمی اداروں کی فنڈنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اس کے علاوہ مختلف ملکوں میں قائم این جی اوز کے تیز و طرار لوگ بھی ان کی اسی خواہش کو ایکسپلائٹ کرتے ہیں اور لمبی رقمیں بٹورنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، بلکہ ناروے میں موجود مختلف کمیونٹی کے کچھ سمجھدار لوگ بھی ناروے کی امارت سے مستفید ہوتے ہیں بسں اس کے لئے انہیں کچھ سلوگنز دینا یا لینا پڑتے ہیں۔

برادرم رؤوف کلاسرا گزشتہ دنوں ناروے کے دورے پر گئے اور واپسی پر اپنے تاثرات رقم کئے، ان کا ایک کالم اتوار کے روز ”جنگ“ میں شائع ہوا۔ یہ کالم ان پاکستانی خواتین کی مظلومیت کے حوالے سے تھا جنہیں کچھ شاطر لوگ پاکستان سے بیاہ کر لائے اور پھر ان کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک روا رکھا کہ انہیں گھر سے بھاگ کر اس ادارے میں پناہ لینا پڑی جو حکومت کے مظلوم اور بے سہارا خواتین کے لئے قائم کیا ہے۔ رؤوف کلاسرا نوجوان صحافی ہیں اور انہوں نے معاملات کو ان کی گہرائی میں جا کر دیکھنے کی صلاحیت کے سبب بہت جلد وہ مقام حاصل کر لیا ہے جو دوسروں کو برس ہا برس کی ریاضت کے باوجود میسر نہیں آتا۔ چند ہفتے قبل انہوں نے اپنے کالموں کی کتاب ”آخر کیوں؟“ ازراہ کرم مجھے ارسال کی تھی جس کے مطالعہ سے میری متذکرہ رائے کی مزید توثیق ہوئی کیونکہ بکھرے بکھرے کالموں کی بجائے ان کی یکجائی زیادہ موثر ہوتی ہے تاہم ناروے کے حوالے سے لکھے گئے اپنے کالم میں انہوں نے جس صورتحال کی نقشہ کشی کی ہے، وہ لفظ بہ لفظ درست ہونے کے باوجود تصویر کا صرف ایک رخ دکھاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس کے لئے کچھ عرصہ اس سوسائٹی میں LIVE کرنا پڑتا ہے اور ظاہر ہے اتنے کم وقت میں یہ ممکن نہیں تھا!

ناروے میں جہاں کچھ پاکستانی خواتین اپنے بعض ہم وطنوں کے ناروا سلوک کا نشانہ بنتی ہیں۔ وہاں بہت سے مرد بھی خواتین کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ مغربی ممالک خصوصاً ناروے میں خواتین کے حقوق اتنے زیادہ ہیں کہ مرد ان کے ساتھ زیادتی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جو مرد ایسا کرتے ہیں وہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں چنانچہ میں نے ناروے کی سیاحت کے دنوں میں اور وہاں دو سالہ قیام کے دوران بہت سے ایسے پاکستانی شوہر دیکھے یا ان کے بارے میں سنا جو اپنی بیویوں کے سامنے اف نہیں کر سکتے بلکہ قانون نے عورتوں کو اتنا زیادہ تحفظ دے رکھا ہے کہ طلاق کی صورت میں مرد کو اپنی عمر بھر کی کمائی سے کافی حد تک ہاتھ دھونا پڑتے ہیں اور یوں وہ فٹ پاتھ پر آنے کی بجائے اپنی جیون ساتھی کے سامنے مکمل طور پر سرنڈر کر دیتا ہے اور بعض صورتوں میں تو ایسے معاملات میں بھی آنکھیں بند کر لیتا ہے جہاں آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے! شاید یہی وجہ ہے کہ ناروے اور دوسرے مغربی ممالک میں مقامی لوگ شادی سے کنارہ کشی کرنے لگے ہیں۔ وہ دوست بناتے ہیں، اسے بیوی کی حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ان کا نقطہٴ نظر یہ ہے کہ اگر دودھ وافر مقداد میں دستیاب ہو تو گھر میں بھینس باندھنے کی کیا ضرورت ہے چنانچہ وہ گرل فرینڈز ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور ان میں سے اکا دکا لوگ ایک آدھ بچہ بھی پیدا کر لیتے ہیں جنہیں معاشرہ بخوبی قبول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں مقامی آبادی کی شرح خطرناک حد تک کم ہوتی جا رہی ہے اور انہیں اس کمی کو پسماندہ ممالک سے لیبر امپورٹ کر کے پورا کرنا پڑتا ہے جبکہ مغربی ممالک بشمول ناروے میں مقیم پاکستانی اپنی دینی اور معاشرتی پس منظر کے حوالے سے مستقل ایسی زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے البتہ ان میں سے بہت سے لوگ شادی سے پہلے ادھر ادھر منہ تو مارتے ہیں لیکن انہیں ازدواجی زندگی بہرحال عزیز ہوتی ہے۔ جو لوگ شادی کے بعد ہی اپنی اس عادت سے باز نہیں آتے۔ قانون ان کو سیدھے راستے پر ڈالنا جانتا ہے چنانچہ وہ عورت کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے یا پھر عورت بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے لگتی ہے اور یوں مرد کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔

برادرم رؤوف کلاسرا نے جن پاکستانی بیویوں کی مظلومیت کا ذکر کیا ہے ان میں زیادہ تعداد ان خواتین کی ہے جنہیں پاکستان سے بیاہ کر لایا گیا اور ان کے سسرال نے ان کی بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں گھر میں غلام بنا کر رکھا۔ یہ خواتین اپنی ناخواندگی کی وجہ سے ان قوانین سے ناواقف تھیں جو ان کی حفاظت کر سکتے تھے چنانچہ دو تین برسوں کے بعد جب انہیں اس بارے میں علم ہوتا ہے وہ ”دارالامان“ کا رخ کرتی ہیں جسے نارویجن میں (KRISESENTER) کہا جاتا ہے۔ یہ دارالامان مظلوم مردوں کے لئے بھی ہے یہ مرد بھی وہ ہیں جنہیں لڑکی کی مرضی کے بغیر ان سے بیاہ دیا گیا، ان کی مظلومیت اس لحاظ سے کچھ زیادہ ہے کہ لڑکی کی طرف سے اس کی شکایت موصول ہوتے ہی انہیں ڈیپورٹ کر دیا جاتا ہے جبکہ مظلوم لڑکی کو خواتین کے حقوق کی محافظ تنظیموں کی طرف سے کافی سپورٹ مل جاتی ہے تاہم ناروے میں مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت نہایت خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہی ہے۔ ناروے میں تقریباً 25 ہزار پاکستانی مقیم ہیں۔ ان کی بڑی تعداد اگرچہ ناخواندہ ہے لیکن انتہائی مخلص اور اپنے نئے وطن ناروے سے وفا داری کے ساتھ ساتھ پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے۔ اس کے برعکس جو پڑھے لکھے پاکستانی ناروے میں جا کر آباد ہوئے ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن چکے ہیں۔

انہوں نے اپنی کمیونٹی سے ناتہ توڑ دیا ہے اور حال مست نظر آتے ہیں جبکہ ”ناخواندہ“ پاکستانی جہاں ناروے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں وہاں وہ ہر وقت پاکستان کے لئے صرف دست بہ دعا ہی نہیں رہتے بلکہ اس کی ہر خوشی اور ہر غمی میں عملی طور پر شریک بھی ہوتے ہیں۔ میں نے 1997 سے 1999 کے سفارتی عرصے کے دوران 14 اگست یا 23 مارچ کے حوالے سے جو تقریبات بھی منعقد کیں اس کے لئے مجھے اپنی حکومت سے کچھ نہیں لینا پڑا۔ تمام اخراجات کمیونٹی کے انہیں ”ناخواندہ“ لوگوں نے برداشت کئے جن سے ”پڑھے لکھے“ پاکستانیوں نے اپنا ناتہ توڑا ہوا ہے۔ میری خواہش ہے کہ رؤوف کلاسرا اس برس یا اگلے برس اوسلو میں منعقد ہونے والی یوم آزادی کی کسی تقریب میں شرکت کریں اور ان پاکستانیوں سے بھی ملاقات کریں جن کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔

اس دورے کے دوران انہیں ”گرون لینڈ“ میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد سے ملنے کا آزادانہ موقع بھی ملے گا جو اپنی فیملی کے ساتھ نہایت خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں ان کی ملاقات کچھ مظلوم مردوں سے بھی ہوگی مگر وہ اپنی ببتا شاید خود نہ سنائیں چنانچہ ان کی ”ترجمانی“ کے لئے جمشید سرور، جہانگیر نواز، قمر چوہدری، ریاض گوندل، فضل حسین یا کسی بھی پاکستانی کو ”زحمت“ دینا پڑے گی۔

Share   گزشتہ سے پیوستہ….صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود

یارو سچی بات یہ ہے کہ مجھے قائد اعظم سے محبت ہے اس لئے جب ایک بار ان کا ذکر چھڑ جائے تو میں کئی دن ان کی شخصیت کے حصار میں رہتا ہوں۔میں نے اپنی حدود اور وسائل کے مطابق تحقیق کے تقاضے پورے کرنے کے بعد کل کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا”قائد اعظم،جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ“اس میں کتابت کی کئی غلطیاں نمایاں تھیں جن میں آزاد کو آزادی اور14اور15اگست کی درمیانی شب کو پندرہ اگست کی شب بنادیا گیا لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے قارئین کالم پڑھتے ہوئے خود ہی ان غلطیوں کی اصلاح کرلیں گے۔

ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں شہریوں کو معلومات تک رسائی دینے کے باوجود یہ رسائی عملی طور پر حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ مثلاً جب یہ دعویٰ داغا گیا کہ قائد اعظم نے9اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلا کر قومی ترانہ لکھنے کے لئے کہا تو مجاورین قائد اعظم کا فرض بنتا تھا کہ وہ اس بہتان کی تحقیق کرتے اور ریکارڈ کھنگال کر اس کی تصدیق یا تردید کرتے۔ آپ پوچھیں گے کہ مجاورین قائداعظم کون ہیں؟میں قائد اعظم کے مجاور ان اداروں کوکہتا ہوں جو قائد اعظم کے نام پرغریب قوم کے ”تنگ دست“ خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ کہنے کو قائد اعظم اکادمی بھی موجود ہے جہاں معروف سکالرز بیٹھے ہوئے ہیں ۔ قائد اعظم پیپرز سیل بھی قائم ہے جہاں ملازمت پیشہ حضرات کسی جذبے سے تہی دامن محض نوکری اور تنخواہ کے لئے بیٹھے عیش کررہے ہیں۔ ان کے پاس سرکاری ریکارڈ بھی موجود ہے اور قائد اعظم کے کاغذات بھی۔ لاہور میں نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن میں بھی عاشقان قائد اعظم خطابت کے گل کھلاتے رہتے ہیں۔تحقیق قدرے مشکل اور صبر آزما کام ہے اس میں وقت بھی لگتا ہے اور پیسہ بھی اس لئے میرے نزدیک یہ ان اداروں کا کام تھا کہ وہ اس موضوع پر تحقیق کرتے اور وضاحت کرتے کیونکہ یہ بالکل ایک انہونی بات تھی جس نے طالبعلموں اور نوجوانوں کو قائد اعظم کے حوالے سے گمراہ کرکے رکھ دیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے مجھے فون کیا اور غصے سے کہا ”اگر قائداعظم کو جگن ناتھ آزاد سے ہی قومی ترانہ لکھوانا تھا تو پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی“میں نے اسے پیار سے سمجھایا کہ آزاد پاکستان کا شہری تھا اس سے ترانہ لکھوانا کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مجھے یہ ساری کہانی فرضی اور خیالی پلاؤ لگتی ہے کیونکہ جگن ناتھ آزاد نے خودکبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ یہ شوشہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے نام نہاد سیکولر حضرات نے چھوڑا ہے۔ہاں مجھے یاد آیا جگن ناتھ آزاد پاکستان اکثر آتا رہا۔ ڈاکٹر انور سدید اور محترم رفیع الدین ہاشمی سے کئی بار ملا ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی بھی قائد اعظم سے ملاقات یا قومی ترانے لکھوانے کا ذکر نہیں کیا اگر جگن ناتھ آزاد کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تو وہ اس کا ہر بار ذکر کرتا بلکہ بقول شخصے اچھل اچھل کر ذکرکرتا۔ ان دعویداروں کے مطابق جسے یہ اعزاز حاصل تھا اس نے تو کبھی اس کا ذکر نہیں کیا لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے دو تین لکھاریوں نے یہ ہوائی اڑا دی جس کی کسی ریکارڈ یا قائد اعظم کے سٹاف سے تصدیق نہیں ہوتی۔ میں جن دنوں حقائق جاننے کے لئے مضطرب تھا اور شواہد اکٹھے کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کررہا تھا تو مجھے بعض دلچسپ تجربات ہوئے۔مثلاً مجھے ریڈیو پروگراموں کی تفصیلات پڑھنے کے لئے اگست1947ء کے اخبارات ڈھونڈھنے میں خاصی ”کھجل خواری“ہوئی تب مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے کن مصائب کا شکار ہیں۔ 1964-65میں جب میں مسلم لیگ کے دور حکومت 1947-54پر ریسرچ کررہا تھا تو پاکستان ٹائمز کی لائبریری میں اخبار کامکمل ریکارڈ موجود تھا جہاں میں نے ان سات برسوں کا ایک ایک اخبار پڑھا۔ پنجاب پبلک لائبریری میں اردو اخبارات کے علاوہ مشرقی پاکستان کے اخبارات کا ریکارڈ بھی موجود تھا۔ آج یہ سارا ریکارڈ ضائع ہوچکا ہم کس قدر علم دوست قوم ہیں؟؟۔

سچ کی تلاش کے اس سفر میں بعض مقامات پر عزت نفس بھی مجروح ہوئی اور ”جھڑکیاں“ بھی کھانی پڑیں لیکن میں نے قائد اعظم کی خاطر سب کچھ برداشت کیا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز اور ریکارڈ دیکھناچاہتا تھا۔ ایک عزیزی نے کہا تم سیکرٹری انفارمیشن رہے ہو تمہارے لئے یہ کام مشکل نہیں ہوگا۔ میں مسکرایا اور عرض کیا کہ یہ قوم بڑی کرسی پر ست ہے ریٹائر لوگوں کو ردی کی ٹوکری کا حصہ سمجھتی ہے۔ ایک بار پھرمیرے تجربے کی تصدیق ہوگئی جب میں نے ریڈیو پاکستان کے نووارد ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کرنے کے لئے متعدد کوششیں کیں اور انہوں نے مجھے گھاس ڈالنا مناسب نہ سمجھا۔ مروت، اخلاق اور بزرگوں کا ادب والدین اور سکول کی تربیت کی دین ہوتا ہے نہ کہ عہددوں اور کرسی کی عطا، مدت ہوئی انور محمود مشرف کے سیکرٹری انفارمیشن تھے وہ میرے جونیئر رفیق کار اور چھوٹا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ میں مشرف کے دور میں زیر عتاب اوایس ڈی تھا، چنانچہ انور صاحب نے میرا فون سننے سے انکار کردیا، بہرحال میں ریڈیو پاکستان(پی بی سی)کے کنٹرولر ہوم سروس علی منشا صاحب کا ممنون ہوں جنہوں نے آرکائیوز اور تاریخی ریکارڈ کے حوالے سے میری مدد کی اور علیحدہ سے ایک تصدیقی بیان بھی بھجوایا کہ جگن ناتھ آزاد کا قومی ترانہ ریڈیو پاکستان سے ہرگز نشر نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ میری تحقیق کا دائرہ1949تک محدود تھا کیونکہ اس کے بعد تو کمیٹی بنی اور بالآخر 1954میں حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا قومی ترانہ پاکستان کا ترانہ بن گیا۔

دوران سفر بات یہاں آکر رک گئی کہ کس طرح قائد اعظم کے اے ڈی سی جناب عطا ربانی سے رابطہ کرکے یہ پوچھا جائے کہ کیا کبھی جگن ناتھ آزاد قائد اعظم سے ملے تھے کیونکہ اس سطح پر ملاقاتیں بہرحال اے ڈی سی کے ذریعہ ہی ہوتی ہیں۔ میں نے کہیں سے محترم عطاربانی صاحب کے صاحبزادے سینیٹر رضا ربانی کا سیل نمبر لیا ،کئی کوششوں کے بعد ان تک پہنچا۔اپنا تعارف کرایا اور التجا کی کہ قومی خدمت کے حوالے سے اور ریکارڈ کی تصحیح کے لئے مجھے یہ بات اپنے والد گرامی سے پوچھ دیں یا مجھے ان کا رابطہ عطا فرمادیں۔ انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور میں نے قائد اعظم کی خاطر وہ جھڑک بھی برداشت کرلی۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے نظامی صاحب کے ذریعے محترم عطاربانی صاحب سابق اے ڈی سی ٹو قائد اعظم تک رسائی حاصل ہوئی اور میں نے ان سے براہ راست بات کرکے اپنی تسلی و تشفی کی کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائد اعظم سے ملے اور نہ کبھی قائد اعظم کی زبان سے ان کا ذکر سنا۔اس کے باوجود اگر ہمارے مہربان نہ مانیں اور اپنی ضد پہ قائم رہیں تو اسے ضد ہی کہا جاسکتا ہے اور ضد کا علاج تو لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا۔

About methemoosa

Am 36, Hardworking and innovative type of person with sound integrity. I have dedicated my life to eliminate corruption.
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.

Leave a comment